غریبوں کے گھر سالن بنانے کا رواج کم ہوتا ہے۔ سبزی خریدنے ، مصالحے ، گھی اور لکڑی آگ کے خرچ میں پڑنے سے بچتے ہوئے زیادہ تر سبز پتوں کی کچی چٹنی یا املی لسوڑے کے تھوڑے سے اچار کے ساتھ چپاتیاں کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔ اسے اچار بہت پسند تھا ۔ گاؤں میں اچار بنانے والی ماسی دولتاں کے گھر سے کبھی کبھار ایک آدھ پلیٹ ان کے گھر آجاتی تھی۔

مگر زیادہ افراد ہونے کی وجہ سے گھر کے تمام لوگوں میں جب تقسیم ہوتا تو ہر ایک کے حصے میں املی کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی آتا یا ایک آدھ کے حصے میں لسوڑے کا دانہ آجاتا یا گاجر کی کوئی چھوٹی سی ٹکڑی ۔ اس کا بڑا جی کرتا کہ وہ روٹی کے ساتھ سیر ہو کے اچار کھائے ۔ وہ اکثر کہا کرتی کہ ” میرے بچوں کی جب نوکریاں لگ جائیں گی تو میں بھی ماسی دولتاں سے اچار کی ایک بڑی بالٹی خریدوں گی اور سارا اچار خود کھاؤں گی۔ “وقت گزرتا گیا اس کے بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئی ۔

شہر میں اچھی نوکریاں بھی مل گئیں۔ اس کے بیٹوں نے اس کے اور اس کے خاوند کے لیے ایک کمرہ چھوڑ کر باقی کا مکان بیچ دیا۔ ایک دن تیز آندھی اور طوفان نے ان میاں بیوی کی اس بوسیدہ سی اکلوتی چھت کو لے اڑایا ۔ گاؤں کے وڈیرے نے ان کو اپنی حویلی کے فارغ کھڑے پرانے کمروں میں سے ایک میں پناہ دے دی۔ وڈیرے کا اچار کا کاروبار تھا۔
حویلی میں ہر سو اچار کی خوشبو پھیلی رہتی۔ وہ اچار بنانے والوں کے ساتھ کام بھی کر دیا کرتی ۔ اسے اب اچار کی کوئی کمی نہیں تھی۔ جب چاہتی جی بھر کے چپاتیوں کے ساتھ اچار کھا سکتی تھی۔ مگر اب اسے اچار اچھا نہیں لگتا تھا
رابعہ وحید